سیاست سے ادب کی دوستی بے میل لگتی ہے
کبھی دیکھا ہے پتھر پہ بھی کوئی بیل لگتی ہے


یہ سچ ہے ہم بھی کل تک زندگی پہ ناز کرتے تھے
مگر اب زندگی پٹری سے اتری ریل لگتی ہے


غلط بازار کی جانب چلے آئے ہیں ہم شائد
چلو سنسد میں چلتے ہیں وہاں بھی سیل لگتی ہے


کوئی بھی اندرونی گندگی باہر نہیں ہوتی
ہمیں تو اس Ø+کومت Ú©ÛŒ بھی Ú©ÚˆÙ†ÛŒ فیل لگتی ہے